اعمال و اخلاقیات پر پڑنے والے بندگی کے اثرات : فرد پر پڑنے والے خصوصی اثرات

اعمال و اخلاقیات پر پڑنے والے بندگی کے اثرات : فرد پر پڑنے والے خصوصی اثرات
پاکی:
اللہ تعالی کی وحدانیت وہ سب سے بڑی چیز ہے، جس سے مومن پاک ہوجاتا ہے؛ اسی لئے اللہ تعالی اس کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں: اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔}[البقرۃ: 222]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «پاکی ایمان کا حصہ ہے»(اسحدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔)

پاکی ایمان کا حصہ ہے، اس لئے کہ پاکی ایمان ہی کی ایک اہم قسم ہے، اور اللہ تعالی ہر ہر قسم کی پاکی کو پسند کرتے ہیں، چاہے وہ:

1. باطنی پاکی ہو:

باطنی پاکی سے مراد یہ ہے کہ نفس کو گناہ و نافرمانیوں کے اثرات سے، نیز اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانے سے پاک کریں، اور اس کا ذریعہ توبہ ہے، نیز اسی طرح دل کو شرک، شک، حسد، بغض، کینہ اور گھمنڈ سے پاک کریں، اور یہ پاکی اس وقت مقدر ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالی کے ساتھ اخلاص کا معاملہ کیا جائے، بھلائیوں سے محبت رکھی جائے، حلم و بردباری، عاجزی و انکساری، سچائی، اور اپنے اعمال سے اللہ کی خوشنودی ڈھونڈنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

2. ظاہری پاکی:

اس سے مراد جسم پر لگی ہوئی گندگی دور کرنا، اور حَدَث کو ختم کرنا ہے:

-گندگی دور کرنا:

یعنی پاک پانی کے ذریعے اپنے لباس، جسم اور جگہ سے نجاست یا اس کے حکم میں شامل دیگر چیزوں کو دور کیا جائے۔

حَدَث ختم کرنا:

اس سے مراد نماز، تلاوتِ قرآن، یا اللہ تعالی کے گھر کا طواف کرنے، یا اس کا ذکر کرنے کے لئے وضوء، غسل اور تیمم کرنا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پاکی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

نماز:

نماز جوکہ بندے کا اپنے رب سے تعلق پیدا کرنے والی چیز ہے۔ نماز کے ذریعے بندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا ہے، اس سے محبت رکھتا ہے، اس کے لئے عاجزی و انکساری کرتا ہے۔ اسی لئے نماز کلمہ توحید کے اقرار کے بعد اسلام کا سب سے بڑا و اہم رکن ہے؛ چنانچہ نماز دین کا ستون اور یقین کے لئے نور ہے، نماز سے نفوس میں پاکی، سینوں میں سکون اور دلوں میں قرار آتا ہے۔ نماز برائی کرنے سے روکنے والی، اور گناہوں کا کفارہ کرنے والی چیز ہے۔ نماز ایک خاص عبات ہے، جو متعین اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔ نماز کی ابتداء تکبیر سے، اور اختتام سلام سے ہوتا ہے۔

نماز کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے اس کو چھوڑنے والا شخص اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلانے والا اور قرآن کریم کا منکر ہے۔ اور یہ اس طرح کا انکار ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو نماز کی فرضیت کا تو یقین رکھتا ہے، لیکن سستی و کاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرتا ہے، تو یقیناً ایسا شخص اپنے آپ کو بڑے خطرے اور شدید وعید سے دوچار کررہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «یقیناً انسان اور کفر و شرک کے درمیان حائل چیز نماز کو ترک کرنا ہے»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

بعض دیگر علماء نے یہ کہا کہ: نماز کا چھوڑنا کفر ہے، لیکن کفرِ اکبر نہیں ہے۔ بہرحال نماز یا تو دینِ اسلام سے خارج کرنے والا کفر ہے، یا گناہِ کبیرہ اور سب سے زیادہ ہلاک کرنے والا عمل ہے۔

نماز کے کئی بڑے بڑے اثرات ہیں، ان میں سے بعض درجِ ذیل ہیں:

« آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "نماز نور ہے"۔ اس حدیث کو امام بیہق»[ی ]نے( روایت کیا ہے۔)

1. نماز برائیوں اور فحش کاریوں سے روکتی ہے؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے، تم جو کچھ کررہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔}[العنکبوت: 45]

2. نماز کلمہ توحید کے اقرار کے بعد سب سے افضل عمل ہے، اس لئے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: «میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: کونسا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وقت پر پڑھی جانے والی نماز۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پھر کہا: اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پھر کہا: اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

بندہ جن جن عبادتوں سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتا ہے، ان سب میں نماز سب سے افضل عبادت ہے۔

3. نماز گناہوں کو دھوڈالتی ہے، اس لئے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «پانچ نمازوں کی مثال تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے پائی جانے والی اس جاری نہر کی طرح ہے، جس میں وہ ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہے»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

4. نماز نمازی کے لئے دنیا اور آخرت میں نور ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ: «جو نماز کی پابندی کرلے، تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن، نور، برھان، اور نجات ہوگی۔ اور جو اس کی پابندی نہ کرے، تو اس کے لئے نہ کوئی نور ہوگا، نہ برھان اور نہ اس کو نجات ملے گی، اور یہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان، اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا»[اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «نماز نور ہے»
[اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔]

5. نماز کے ذریعے اللہ تعالی بندے کے درجات بلند کرتا ہے، اور گناہوں کو مٹاتا ہے؛ اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: «تم کثرت سے سجدہ کرو یعنی نماز پڑھو، کیونکہ تم اللہ تعالی کے سامنے ایک بھی سجدہ کرتے ہو، تو اللہ تعالی اس سجدے کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور تمہارے ایک گناہ کو مٹاتا ہے»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

6. نماز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جنت میں داخلہ ملنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے؛ اس لئے کہ حضرت ربیعۃ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، کہتے ہیں کہ: « میں ایک شب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں نے آپ کے لئے وضوء اور قضاء حاجت کے لئے پانی لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگو، تو میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی صحبت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟ تو میں نے کہا: بس یہی کافی ہے میرے لئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کثرت سجود سے میری مدد کرو۔»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

نماز طاقت و غلبہ رکھنے والے اللہ اور کمزور بندے کے درمیان ایک ربط ہے، تاکہ کمزور انسان طاقتور و مضبوط ذات کی قوت سے اپنے آپ کو طاقتور بنالے، کثرت سے اس کا ذکر کرے، اور اپنے دل کو اس کی یاد سے مربوط رکھے؛ کیونکہ نماز کے مقاصد میں یہی سب سے بڑا مقصد ہے؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔}[طٰہٰ: 14۔]

« زکاۃ پاک کرنے والی، انسان، اس کے مال اور معاشرے کو بلندی عطا کرنے والی عبادت ہے۔»

زکاۃ

پاکی و بلندئ نفس سے زکاۃ کا تعلق ہے۔ پاکئی نفس توحید پرست بندے کو اپنا مال زکاۃ کے ذریعے پاک رکھنے کا خُوگر بناتی ہے۔ زکاۃ مالداروں کے مال میں ایک لازمی حق ہے، جو غریبوں اور ان جیسے دیگر لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے، تاکہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کی جائے، نفوس کو پاک کیا جائے، اور ضرورت مند و محتاجوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے۔

زکاۃ کی اسلام میں بہت بڑی اہمیت ہے، اور زکاۃ کی شرعی حیثیت اس کی اہمیت و مقام کی کھلی دلیل ہے، اور اس شرعی حکم میں غور و فکر کرنے والا انسان اسلام کے اس عظیم رکن کی اہمیت اور اس سے پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگالے گا۔ ان ہی اثرات میں سے بعض یہ ہیں:

1. انسانی نفس کو کنجوسی، لالچ، اور حرص جیسی قبیح عادتوں سے پاک رکھنا۔

2. غریبوں کے ساتھ ہمدردی، محتاج، ضرورتمند اور محروم لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل۔

3. ایسے مفادِ عامہ کی تکمیل جس پر امت کی زندگی اور خوشی موقوف ہوتی ہے۔

4. مالداروں اور تاجروں کے ہاتھوں میں مال کی بھرمار کو محدود رکھنا، تاکہ مال کسی ایک متعین گروہ پر منحصر نہ ہو، یا مالداروں کی ہی جاگیر بن کر نہ رہ جائے۔

5. زکاۃ اسلامی معاشرے کو گویا ایک خاندان بنادیتی ہے، جس میں صاحبِ حیثیت نادار پر، اور صاحبِ وسعت تنگدست پر رحم کھاتا ہے۔

6. زکاۃ سے مالداروں کے تئیں دلوں میں پائے جانے والے غصے اور کراہت کو، نیز اللہ تعالی کی طرف سے مالداروں کو ملنے والی نعمتوں پر لوگوں کے دلوں میں موجود کینہ یا حسد کا ازالہ کرتی ہے۔

7. زکاۃ مالی جرائم، جیسے چوری، لوٹ مار اور ڈکیتی کے وقوع پذیر ہونے میں آڑ بنتی ہے۔

8. زکاۃ مال کو پروان چڑھاتی ہے، یعنی بڑھاتی ہے۔

قرآن و حدیث میں کئی ایسی واضح دلائل موجود ہیں، جو زکاۃ کی فرضیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکاۃ اسلام کے ان مضبوط ستونوں میں سے ایک ہے، جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے، اور اسی وجہ سے زکاۃ کو اس دین کے اہم ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔}[البقرۃ: 43]

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: {تم نمازیں قائم رکھو، اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجوگے، سب کچھ اللہ کے پاس پا لوگے، بے شک اللہ تعالی تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔}[البقرۃ: 110]

حضرت جبرئیل کی مشہور و معروف حدیث میں آیا ہے کہ: «اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کے سواء کسی کے معبود نہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دو، نماز کی پابندی کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور اگر صاحبِ استطاعت ہو، تو حج کرو»[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اللہ کے سواء کسی کے معبود نہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز کی پابندی کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور اگر صاحبِ استطاعت ہو، تو حج کرنا»[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ ]

اس جیسے بہت سے دلائل موجود ہیں، جو واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ زکاۃ اسلام کا اہم رکن اور اہم بنیاد ہے، جس کے بغیر اسلام مکمل ہو نہیں سکتا ہے۔

روزہ:

اللہ تعالی نے روزے فرض کئے، اس کو اسلام کا رکن قرار دیا۔ روزہ - اللہ تعالی کی بندگی کی نیت سے - طلوعِ آفتاب سے لیکر غروبِ آفتاب تک روزہ توڑنے والی چیزوں سے رُکے رہنے کا نام ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا۔}[البقرۃ: 187]

بندے کے دل میں ایمان اور اللہ تعالی کی وحدانیت گھر کرجانا، اللہ تعالی کے فرض کئے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کا سبب ہے، تاکہ اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل ہوجائے: {اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔}[البقرۃ: 183]

توحید پرست انسان روزہ رکھ کر خوش ہوتا ہے، اور روزہ رکھنے میں سبقت کرتا ہے۔ اللہ تعالی حدیثِ قدسی میں فرماتے ہیں: «بنی آدم کا ہر عمل اس کی اپنی ذات کے لئے ہے، سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لئے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں ۔ ۔ "»
[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

روزے کی وجہ سے بندے پر پڑنے والے اثرات بہت ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:

روزہ دل میں ایمان کے تعمیر کی تربیت گاہ ہے۔

1. روزہ بندے اور اس کے پروردگار کے درمیان ایک راز ہے، جس میں مومن کے اندر پائے جانے والے اپنے خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین نمایاں ہوتا ہے؛ کیونکہ کسی بھی صورت

2. میں روزے میں ریاکاری ناممکن ہے۔ چنانچہ روزہ مومن کے دل میں اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اور اس کی خشیت پیدا کرتا ہے؛ اور یہ ایک بلند پایہ مقصود ہے، جس کو پانے میں بہت سے لوگ کوتاہی کے شکار ہیں۔

3. روزہ امت کو ترتیب و نظام، اتحاد و اتفاق، انصاف پسندی اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ نیز مومنوں کے درمیان رحم و کرم اور اچھے اخلاق کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اور اسی طرح روزہ اسلامی معاشرے کو شرور و فتن اور برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

4. روزہ مسلمان کو اپنے بھائی کی تکلیف محسوس کرنے کا عادی بناتا ہے، چنانچہ اسی احساس کے نتیجے میں مسلمان غریبوں اور محتاجوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، اور ان پر اپنا مال خرچ کرتا ہے؛ اور اس طرح مسلمانوں کے درمیان محبت و بھائی چارگی پیدا ہوجاتی ہے۔

5. روزہ نفس کو کنٹرول میں رکھنے، ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے، اور تکالیف برادشت کرنے کی عملی مشق ہے۔

6. روزہ گناہوں میں پڑنے سے انسان کے لئے ڈھال ہے، اور روزے کے بدلے میں انسان کو خیرِ کثیر سے نوازا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: «روزہ ڈھال ہے، روزے دار گالی گلوج نہ کرے، جہالت پر نہ اتر آئے، اور اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے، یا گالی دے، تو وہ اس سے کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں، دو بار اس طرح کہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی بُو اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزے دار نے میرے لئے کھانا، پینا اور اپنی خواہشات کو چھوڑ رکھا ہے۔ روزہ میرے لئے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دینے والا ہوں، اور ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہوگا۔»
[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

حج:

اللہ تعالی کی وحدانیت حج میں عیاں ہوتی ہے۔ حج وہ عبادت ہے جس سے توحید پرست بندے کی وحدانیت میں اور اضافہ ہوتا ہے، اور وہ کمالِ ایمان سے آراستہ ہوجاتا ہے۔ عبادتِ حج میں بندہ اپنے حج کی شروعات میں "لبيك اللَّهم لبَيك لبيكَ لا شَريكَ لكَ لبيك" کی صدا لگاتے ہوئے توحید کا اعلان کرتا ہے، بلکہ وہ حج کے ہر عمل میں اسی کا ثبوت پیش کرتا ہے، تاکہ وہ گناہوں سے دور رہتے ہوئے، اور توحید کا اعلان کرتے ہوئے اس دن کی طرح واپس اپنے گھر لوٹتا ہے، جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ حج ایامِ حج میں اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کو اسوہ بناتے ہوئے مناسکِ حج کی ادائیگی کی نیت سے اللہ کے گھر کو پہنچنے کا نام ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی روشنی میں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں پر حج فرض ہے۔

بندے کی زندگی پر پڑنے والے حج کے اثرات:

1. حج گناہوں کے کفارے کا سبب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: «کیا تمہیں معلوم ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ماضی میں کئے ہوئے تمام اعمال کا شمار نہیں رہتا ہے، ہجرت کرلینے کے بعد ماضی میں کئے ہوئے تمام اعمال کا شمار نہیں رہ جاتا ہے، اور اسی طرح حج سے پہلے کئے ہوئے تمام اعمال حج کرلینے کے بعد لا اعتبار ہوجاتے ہیں۔»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:«کعبۃ اللہ کا طواف، صفا و مروۃ کے درمیان سعی، اور رمئ جمرات کو اللہ تعالی کے ذکر کی غرض سے فرض کیا گیا ہے«(اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔)

2. حج اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کا نام ہے، چنانچہ بندہ اپنے گھر بار، بال بچے چھوڑ آتا ہے، اپنے کپڑے اتار پھینکتا ہے، اوراللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے وحدانیت کا اعلان کرتا ہے۔ اور یہ اطاعت و فرمانبرادی کی بہت بڑی مثال ہے۔

3. حج اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: « حجِ مقبول کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ہے۔ »
[اس حدیث پر امام بخاری و امام مسلم متفق ہیں۔]

4. حج لوگوں کے درمیان مساوات اور انصاف کے اصول کو واضح کرنے کا عملی مظاہرہ ہے؛ چنانچہ جب سارے لوگ عرفات کی چوٹی پر ایک ہی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں، تو ان کے درمیان دنیا کی کسی بھی چیز کے ذریعہ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں رہتی ہے، بلکہ وحدانیت اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فوقیت دی جاتی ہے۔

5. فریضہ حج میں آپسی تعارف و تعاون کے اصول کی توثیق ہوتی ہے، کیونکہ حج میں آپسی تعارف مضبوط ہوتا ہے، ایک دوسرے سے مشورہ لیا جاتا ہے، اور آراء کا آپسی تبادل ہوتا ہے۔ اور اس اصول پر عمل کرنے میں امت کی ترقی اور اس کی قائدانہ حیثیت کو بلند کرنے میں بے حساب فوائد ہیں۔

6. حج وحدانیت اور اخلاص کا داعی ہے، جو حج کے بعد انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، پھر وہ سوائے ایک اللہ کے کسی کو نہیں مانتا ہے، اور نہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے مانگتا ہے۔
 


متعلقہ: