ایک اللہ کو ماننے والے بندے پر توحید کا اثر

ایک اللہ کو ماننے والے بندے پر توحید کا اثر

ایک اللہ کو ماننے والے بندے پر توحید کا اثر

1-حیرانی و شک و شبہ سے نجات: جو انسان یہ جانتا ہو کہ اس کا ایک رب ہے، جو ہر چیز کا پروردگار و خالق ہے، اسی نے انسان کو پیدا کیا، اچھی صورت میں ڈھالا، عزت و مقام سے نوازا، زمین پر اس کو اپنا خلیفہ بنایا، آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو اس کی خدمت میں لگادیا، اور اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں سے اس کو مالا مال کیا۔ تو جس انسان کا یقین اس جیسا ہو، تو کیسے اس کے اندر حیرانی یا شک و شبہ کا مرض پیدا ہوسکتا ہے؟ وہ تو اپنے پروردگار سے لَو لگائے بیٹھا ہے، اس کی آغوش میں پناہ لے لیا ہے، اور اس کو یہ علم ہوگیا کہ دنیوی زندگی تو چند سالہ ہے، اور اس میں بھلائی کے ساتھ برائی، انصاف کے ساتھ ظلم و زیادتی، اور لذت و راحت کے ساتھ مصیبت و مشقت ملے ہوئے ہیں۔

اور جو لوگ اللہ تعالی کی ربوبیت کا انکار کرتے ہیں، اور اللہ تعالی سے ہونے والی ملاقات میں شک کرتے ہیں، تو ان جیسے لوگوں کی زندگی میں نہ کوئی مزہ ہے، اور نہ اس کا کوئی مفہوم، ان کی زندگی تو سر تا پا حیرانی و پریشانی، اور ایسے سوالوں کے کٹھرے میں کھڑی ہے، جو لاجواب ہیں۔ ان کے لئے نہ کوئی ایسی پناہ گاہ ہے، جس میں وہ خود کو محفوظ سمجھ سکیں، اسی لئے ان کی عقلیں – چاہے وہ مہارت و چالاکی کی انتہاء پر ہوں – سدا حیرانی و پریشانی اور بے چینی و بے قراری کا شکار ہیں۔ یہ در اصل ان لوگوں کے لئے دنیوی عذاب اور جہنم ہے، جس میں صبح و شام ان کے دل جَل رہے ہیں۔

2-نفسیاتی راحت و سکون: راحت کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ راستہ اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔ ۔ ۔ وہ سچا اور گہرا ایمان جس میں نہ شک سے کوئی دراڑ پیدا ہو اور نہ نفاق کی چوٹیں اس پر لگی ہوں۔ حقیقتِ حال اسی کی گواہی دیتی ہے، تاریخ کے اوراق اسی کی تائید کرتے ہیں، اور انصاف پسند و صاحبِ بصیرت انسان اپنے آپ میں اور اپنے آس پاس کے ماحول میں یہی سب کچھ محسوس کرتا ہے۔ یقینی طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ حیران، پریشان، بے قرار اور ناکامی و مایوسی کے احساس کا شکار وہ لوگ ہیں، جو ایمان کی نعمت اور یقین کی مٹھاس سے محروم ہیں۔ یقیناً ان کی زندگی میں نہ کوئی مزہ ہے، اور نہ کوئی لذت، اگرچہ کہ ظاہری طور پر ان کی زندگی میں آسائش و آرائش اور لذتوں کے اسباب کی فراونی ہے؛ اس لئے کہ انہیں ان لذتوں کا حقیقی مفہوم ہی نہیں معلوم اور نہ انہیں اس کے مقصود کا علم ہے، نیز انہیں اس آرائش و آسائش کے حقیقی راز کا پتہ بھی نہیں ہے، تو اس جیسے لوگ کیسے نفسیاتی راحت و سکون یا انشراحِ صدر کی نعمت سے محظوظ ہوں گے؟ بیشک نفسیاتی راحت و سکون ایمان کا ایک پھل ہے، اور توحید ایک بار آور درخت ہے، جو وقتاً فوقتاً اللہ تعالی کے حکم سے اپنے پھل دیتا ہے۔ ایمان ایک آسمانی نسیمِ سحر ہے، جس سے اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو نوازتا ہے، تاکہ وہ اس وقت ثابت قدم رہیں، جب لوگ بے قرار و بے چین ہوںگے۔ اس وقت راضی و خوش رہیں، جب لوگ ناراض ہوں۔ اس وقت یقین کا مظاہرہ کریں جب لوگ شک میں پڑے ہوں۔ اس وقت صبر کا دامن تھام لیں، جب لوگ خوف و فزع کے عالم میں ہوں، اور اس وقت حلم و بردباری سے کام لیں، جب لوگ غصے میں آپے سے باہر ہوں۔ یہی وہ نفسیاتی سکون تھا، جس سے ہجرت کی گھڑی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل آباد تھا، چنانچہ آپ کسی غم و رنج یا افسوس کا شکار نہیں ہوئے، نہ خوف و ڈر نے آپ کے قدم لرزائے، اور نہ آپ کے دل میں شک و حیرت کا دور دور تک نام و نشان تھا، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ }(التوبۃ: 40)

ایمان نجات کی کشتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی و رفیقِ غار پر افسوس و رنج کا پہاڑ ٹوٹ رہا تھا۔ انہیں اپنی جان یا اپنی زندگی کی ہلاکت کا خوف نہیں تھا، بلکہ رسول کی جان اور پیغامِ توحید کا انہیں دکھ کھارہا تھا، چنانچہ اس وقت جبکہ غارِ ثور کو دشمنوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، اس وقت حضرت ابوبکر نے کہا:&"اے اللہ کے رسول اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے پاؤں دیکھے (یعنی اپنا سر جھکائے) تو وہ ہمیں اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دلی سکون پہنچاتے ہوئے یہ کہا: اے ابوبکر تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے، جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہو؟&"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا)

جو اللہ تعالی کو چھوڑکر دوسروں سے بے نیاز ہوجاتا ہے، سارے لوگ اس کے محتاج ہوجاتے ہیں۔

یہ راحت و سکون اللہ کی طرف سے ملنے والی ایسی روحانیت اور نور ہے، جس سے ڈرنے والے کو سکون، پریشان شخص کو راحت، غمگین کو دلاسہ، تھکے ماندے کو آرام، کمزور کو قوت، اور گمراہ کو رہبری مل جاتی ہے۔ یہ راحت و سکون جنت کی ایک کھڑکی ہے، جو اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کے لئے کھول دیتا ہے۔ اس کھڑکی سے انہیں جنت کی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگتی ہیں، جنت کے انوار ان کے لئے روشنی کا ساماں فراہم کرتے ہیں، اور اس کی خوشبو سے وہ مست مگن ہوجاتے ہیں، تاکہ اللہ تعالی ان مومن بندوں کو اپنے سابقہ نیک اعمال کا کچھ مزہ چکھوائے، اور اُن نعمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے، جن کے یہ لوگ منتظر ہیں، چنانچہ مومن بندے جنت سے آنے والی ان ہواؤں کی وجہ سے روحانیت و سکون، امن و امان، اور سلامتی کی نعمت سے بہرہ ور ہوں گے۔

جس قدر آپ اللہ تعالی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کمزور رہیں گے، اسی قدر آپ پریشانیوں اور مسائل کے شکار رہیں گے۔

3-اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ: ہر چیز اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے، ان چیزوں میں نفع و نقصان بھی شامل ہے۔ اللہ تعالی ہی خالق و پروردگار ہے، وہی رزق دینے والا مالک اور کائنات کے نظام کو سنبھالنے والا ہے، اس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اسی لئے جب مومن بندے کا یہ یقین ہو کہ اس کو ہرگز کوئی اچھائی و برائی، اور نفع و نقصان نہیں پہنچ سکتا، سوائے اس کے جو اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے، اور ساری مخلوق اگر اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہٹ کر کسی اور چیز پر متفق ہوجائے، تو بھی اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، تو اس جیسے ایمان کے پیدا ہوجانے کے بعد وہ ضرور یہ جان جائے گا کہ اللہ تعالی کی ہی وہ واحد ذات ہے، جو نفع و نقصان کی مالک، اور عطا کرنے یا محروم رکھنے کی قدرت رکھتی ہے۔ اس جیسے یقین سے اللہ تعالی کی ذات پر زیادہ بھروسہ اور اس کی وحدانیت کی مزید تعظیم دل میں پیدا ہوجاتی ہے، اور اسی لئے اللہ تعالی نے نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہ رکھنے والے، اور اپنے عابد کو کسی قسم کا فائدہ نہ پہنچانے والے معبود کی عبادت کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ:{آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مالک وہی ہے، جن جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی خسارہ پانے والے ہیں۔ }(الزمر: 63)

انسانی دل میں ایک بکھراؤ ہے، جو اللہ تعالی کی ذات کی طرف متوجہ ہوجانے پر ختم ہوجاتا ہے، ایک وحشت و خوف ہے، جو تنہائیوں میں اللہ تعالی سے لَو لگانے پر دور ہوجاتاہے، اور ایک غم ہے، جو اللہ تعالی کی معرفت اور اس کے ساتھ صدقِ معاملہ پر ناپید ہوجاتا ہے۔

4-اللہ تعالی کی عظمت: اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنے والے، اسی کی عبادت کرنے والے، اور اسی سے اپنی حاجتیں مانگنے والے بندے کی زندگی میں اللہ تعالی کی عظمت کا پہلو ظاہر و عیاں ہے۔ جب مومن بندہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالی کو حاصل قدرت و طاقت میں غور و فکر کرتا ہے، تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:{میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے۔}(الانعام: 80)

اور وہ کہنے لگتا ہے کہ:{اے ہمارے پروردگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔ }(آل عمران: 191)

یہ سب امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ دل کا رب و خالق کے ساتھ ذاتی تعلق ہے، جو اُس پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کی راہ میں کوشش کرنے، اس کی شریعت و احکام کی عظمت کرنے، اور کسی ایسی ذات کو اس کا شریک نہ ٹہرانے کی تعلیم دیتا ہے، جو اس زمین و آسمان میں ذرّہ برابر بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔ یہ سب امور اللہ تعالی کی عظمت میں شمار ہیں، اور یہ عظمت ایک رب کو ماننے والے مومن بندے پر پڑنے والا ایک اثر ہے۔



متعلقہ: