رب کے موجود ہونے کے ثبوت

رب کے موجود ہونے کے ثبوت

رب کے موجود ہونے کے ثبوت

مؤمن: وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کو اپنا رب اور قادر مطلق مانتا ہے، اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہی اکیلا معبودِ برحق ہے۔

ساری کائنات اللہ تعالی کے موجود ہونے کا اقرار و تصدیق اور یقین رکھتی ہے، اور زبانِ حال سے اس کی گواہی دیتی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالی کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے، وہ تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرمادے۔ اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو۔ }(ابراھیم: 10)، اور کیسے اس چیز پر ثبوت کا مطالبہ کیا جائے، جو ہر چیز کے وجود کا ثبوت ہے۔

آپ اللہ تعالی کی تعریف کرتے ہیں، تو بھی یہ اسی کا فضل و انعام ہے۔ آپ ہر حال میں اللہ تعالی کے محتاج ہیں۔

اگر ہم اس طرف توجہ نہ دیں، اور رب کے موجود ہونے کے ثبوت تلاش کریں، تو ہمیں درجِ ذیل ثبوت مہیا ہوتے ہیں:

فطری ثبوت:

ساری کائنات کو فطری طور پر پرودگارِ عالم پر ایمان رکھنے والا پیدا کیا گیا ہے، اس فطرت سے وہی شخص روگردانی کرتا ہے، جس کے دل و دماغ کو اللہ تعالی نے بجھادیا ہو۔ اور فطرت و طبعیات کے اللہ تعالی کے موجود ہونے کا ثبوت ہونے پر سب سے بڑی دلیل نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:&"ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، لیکن والدین اس بچے کو یہودی، عیسائی، اور مجوسی بنادیتے ہیں، جیساکہ جانور صحیح سالم جانور ہی کو جنم دیتا ہے۔ کیا تم لوگ ان جانوروں میں کوئی نشانی یا علامت دیکھتے ہو؟&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)

اللہ ۔۔۔۔ یہ وہ نام ہے جو فطرت میں منقوش ہے۔ اللہ تعالی کو ماننے کے لئے فطرت سے زیادہ کوئی اور بڑے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔

دنیا کی ہر مخلوق اپنی فطرت میں وحدانیت کا اقرار کرتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{پس آپ یک سو ہوکر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں۔ اللہ تعالی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ تعالی کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ }(الروم: 30) ، رب العالمین کے موجود ہونے پر یہ کچھ فطری ثبوت ہیں۔

اور اللہ تعالی کے موجود ہونے پر فطری ثبوت ہر طرح کے ثبوت سے زیادہ مضبوط و قوی ہے، لیکن صرف اس شخص کے لئے جس کو شیطان نے اپنے شکنجے میں نہ گھیر رکھا ہو، اسی لئے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اللہ تعالی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ }(الروم: 30)

اللہ تعالی کے اس فرمان کے بعد کہ:{پس آپ یک سو ہوکر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں۔ } (الروم: 30)

فطرتِ سلیمہ اللہ تعالی کے موجود ہونے کا ثبوت ہے، اور جس شخص کو شیطان نے اپنے شکنجے میں گھیر رکھا ہو، تو وہ اس ثبوت سے کورا رہتا ہے، اور اس کے لئے اس ثبوت کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور جب بھی وہ کسی بڑی مصیبت میں پڑجاتا ہے، تو اس کے ہاتھ، آنکھ، اور دل آسمان سے لَو لگانے لگتے ہیں، اور وہ اپنی فطرتِ سلیمہ کی وجہ سے اپنے پروردگار سے براہِ راست مدد کی بھیک مانگتا ہے۔

عقلی دلیل:

خالق و مالک اللہ تعالی کے وجود کے چند ایسے بڑے و مضبوط عقلی دلائل و ثبوت بھی ہیں، جن کا صرف کوئی ہٹ دھرم ہی انکار کرسکتا ہے۔ چند عقلی ثبوت ذیل میں سلسلہ وار ذکر کئے جاتے ہیں:

1-ہر مخلوق کے لئے خالق –پیدا کرنے والی ذات- کی ضرورت ہے، اس لئے کہ ماضی اور مستقبل میں آنے والی ساری کائنات کے لئے کسی ایسے خالق کا ہونا ضروری ہے، جس نے ان کو وجود بخشا ہو، کیونکہ کائنات کی کسی بھی مخلوق کا خود بخود یا اتفاقی طور پر وجود میں آجانا، ناممکن ہے، ایسا اس لئے محال ہے کہ کوئی بھی مخلوق خود بخود وجود میں نہیں آسکتی، کیونکہ کوئی بھی اپنے آپ کو پیدا نہیں کرسکتا ہے، اور اس لئے بھی کہ مخلوق اپنے وجود میں آنے سے پہلے ایک معدوم چیز تھی، اور جو چیز کبھی معدوم رہی ہو، وہ بعد میں کبھی خالق کیسے ہوسکتی ہے؟، اس لئے بھی کہ ہر فناء ہونے والی چیز کے لئے کسی فناء کرنے والی ذات کا ہونا ضروری ہے۔ اور اس لئے بھی کہ کائنات کا یہ انوکھا نظام، اس میں پائی جانے والی چیزوں میں یہ ہم آہنگی، اسباب و مسبّبات کے درمیان یہ بے مثال ربط، اور کائنات کی چیزوں کا آپسی تعلق اس چیز سے انکار کرتا ہے کہ اس کائنات کا وجود یونہی اتفاقاً ہوگیا ہو؛ چنانچہ ہر مخلوق کے لئے ایک خالق ہے، اور جب یہ ناممکن ہے کہ یہ مخلوق خود اپنے آپ کو وجود بخشے، یا اتفاقی طور پر اس کا وجود ہوگیا ہو، تو یہ بات طے ہوگئی کہ اس کائنات کو وجود بخشنے والی کوئی ایک ذات ہے، اور وہ اللہ ہے، جو سارے جہانوں کا پالنہار ہے۔ اللہ تعالی نے اسی عقلی ثبوت کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ:{کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خودبخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ }(الطور: 35)

یعنی یہ لوگ کسی خالق کے بنا پیدا نہیں ہوئے ہیں، اور نہ ان لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کرلیا ہے، تو پھر یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ ان کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ تعالی ہے، اسی لئے جب حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا، اور جب آپ اس آیت پر پہنچے:{کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خودبخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔ }(الطور: 35-37)

(اس وقت حضرت جبیر مشرک تھے) تو آپ نے کہا :&"میرا دل اڑھنے لگا&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)

2-اللہ تعالی کی کائنات و مخلوقات میں پائی جانے والی ظاہری نشانیاں؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔ }(یونس: 101)

اس لئے کہ آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی ہی خالق (پروردگار) ہے، اور اس بات کا یقین پیدا کرتا ہے کہ وہی رب ہے۔ دیہات کے ایک شخص سے یہ پوچھا گیا کہ تم نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو اس نے جواب دیا کہ پاؤں کے نشان راہرَو کے گذرنے کی دلیل ہے، اور اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے لئے شناخت ہے، تو یہ بُرجوں والا آسمان، یہ پھیلی ہوئی زمین، اور یہ موجیں مارنے والے سمندر کیا سننے اور دیکھنے کی کامل قدرت رکھنے والی ذات کے وجود کی دلیل نہیں ہیں؟

ساری انسانیت چاہے وہ اپنے کمتر و مادیات کے علم کی چوٹی پر پہنچ جائے، پھر بھی وہ غیب و پوشیدہ چیزوں کا پردہ فاش کرنے میں عاجز و قاصر ہے، اور اس عاجزی کو دور کرنے کا واحد وسیلہ صرف اللہ تعالی کی ذات پر ایمان و یقین ہے۔

3-کائنات کے نظام کا محکم و مضبوط ہونا: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کے نظام کو سنبھالنے والا ایک اللہ، ایک بادشاہ اور ایک رب ہے۔ مخلوق کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے، اور نہ ان کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور پروردگار ہے۔ جس طرح اس کائنات کے لئے دو ہم پلّہ و متساوی رب اور پروردگار کا ہونا محال ہے، اسی طرح دو معبود یا دو اللہ کا ہونا بھی محال ہے؛ کیونکہ دو متساوی و دو ہم پلّہ پروردگار کے ذریعے اس کائنات کے وجود میں آنے کا علم و یقین خود بخود ناممکن ہے، فطری طور پر محال ہے، اور عقلی طور پر اس علم و یقین کا غلط ہونا بھی واضح امر ہے، اسی طرح دو معبود کے وجود کا علم بھی غلط ہوگا۔

شرعی دلیل:

ساری شریعتیں خالق کے وجود، اس کی کمالِ حکمت و رحمت اور کمالِ علم کا ثبوت ہیں، اس لئے کہ ان شریعتوں کے لئے کسی شریعت بنانے والے کا ہونا ناگزیر ہے، اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:&"اے لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارکر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔ &"(البقرۃ: 21-22)،اور ساری آسمانی کتابیں اسی کی گواہی دیتی ہیں۔

حسّی دلیل

اللہ تعالی کے وجود پر سب سے زیادہ واضح اور کھلا ثبوت ہر بصارت و بصیرت رکھنے والے کے احساس سے تعلق رکھنے والے ظاہری و حسّی ثبوت ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں یہاں ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں:

1-دعاؤں کی قبولیت: انسان اللہ تعالی سے دعاء مانگتا ہے، کہتا ہے: &"اے میرے پروردگار&"، اور اپنی کسی ضرورت کی برآری کے لئے اس سے التجاء کرتا ہے، پھر اس کی وہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ یہ قبولیتِ دعاء پروردگار کے وجود کا حسّی ثبوت ہے۔ اور انسان خود اللہ ہی کو پکارتا ہے، اور اللہ تعالی اس کی پکار سن لیتا ہے، تو انسان کے لئے یہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت ہے۔ اسی طرح ہم ماضی و حال کے لوگوں کے بارے میں کئی ایسی باتیں سنتے ہیں، جن سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی دعائیں قبول کی تھیں۔ اور یہ ایک واضح حقیقت ہے، جو خالق و پروردگار کے وجود کا واضح ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں اس قسم کے کئی ثبوت مہیا کئے گئے ہیں، جیساکہ:{ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے اس کی سن لی۔ }(الانبیاء: 83-84) ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

الحاد عقلی بیماری، تفکیری بگاڑ، دل کی تاریکی، اور زندگی میں ناکامی کا نام ہے۔

2-کائنات کی ایسی چیزوں کی طرف رہبری ہونا، جس میں ان کے لئے زندہ رہنے کا راز ہے۔ چنانچہ پیدائش کے بعد بچہ کو کس نے اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی طرف رہبری کی؟ اور کس نے ھُدھُد نامی پرندے کو زیرِ زمین پائے جانے والے پانی کے کنویں دیکھنے کی قوت بخشی، جبکہ دیگر پرندے زیرِ زمین پائے جانے والے کنویں دیکھنے کی قوت نہیں رکھتے؟ بیشک وہی اللہ ہے، جس نے یہ فرمایا کہ:{ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھادی۔ }(طٰہٰ: 50)

الحاد ایک عقلی بیماری و تفکیری بگاڑ کا نام ہے۔

3-رسول اور نبیوں کے ساتھ آنے والی نشانیاں: یہ وہ معجزے ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے رسولوں اور نبیوں کو تقویت پہنچائی، اور ان معجزات کے ذریعے بنی نوعِ انسانی میں انہیں اپنا منتخب بنایا۔ اللہ تعالی نے ہر نبی کو اپنی قوم کے پاس ایسے معجزے کے ساتھ بھیجا، جو اس بات کا تیقن دلاتا ہے کہ جو پیغام رسول لیکر آئے ہیں، وہ اس ایک خالق و مالک کا پیغام ہے، جس کے سواء کوئی رب اور کوئی معبود نہیں ہے۔



متعلقہ: